صحیح بخاری

جزیہ وغیرہ کے بیان میں

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏قَاتِلُوا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ‏‏‏‏ يَعْنِي أَذِلَّاءُ وَالْمَسْكَنَةُ مَصْدَرُ الْمِسْكِينِ فُلَانٌ أَسْكَنُ مِنْ فُلَانٍ أَحْوَجُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْهَبْ إِلَى السُّكُونِ وَمَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنْ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ وَالْعَجَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِمُجَاهِدٍ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُ أَهْلِ الشَّأْمِ عَلَيْهِمْ أَرْبَعَةُ دَنَانِيرَ وَأَهْلُ الْيَمَنِ عَلَيْهِمْ دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جُعِلَ ذَلِكَ مِنْ قِبَلِ الْيَسَارِ.

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر ولا يحرمون ما حرم الله ورسوله ولا يدينون دين الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون‏» ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو وہ حرام مانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق کو انہوں نے قبول کیا (بلکہ الٹے وہ لوگ تم ہی کو مٹانے اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہو گئے)۔ ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی (مثلاً یہود و نصاریٰ) یہاں تک (مدافعت کرو) کہ وہ تمہارے غلبہ کی وجہ سے جزیہ دینا قبول کر لیں اور وہ تمہارے مقابلہ پر دب گئے ہوں۔ ( «صاغرون‏» کے معنی) «أذلاء‏.‏» کے ہیں۔ اور ان احادیث کا ذکر جن میں یہود، نصاریٰ، مجوس اور اہل عجم سے جزیہ لینے کا بیان ہوا ہے۔ ابن عیینہ نے کہا، ان سے ابن ابی نجیح نے کہا کہ میں نے مجاہد سے پوچھا، اس کی کیا وجہ ہے کہ شام کے اہل کتاب پر چار دینار (جزیہ) ہے اور یمن کے اہل کتاب پر صرف ایک دینار! تو انہوں نے کہا کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3156

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَمْرًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَعَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَهُمَا بَجَالَةُ سَنَةَ سَبْعِينَ عَامَ حَجَّ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ بِأَهْلِ الْبَصْرَةِ عِنْدَ دَرَجِ زَمْزَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ فَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ الْمَجُوسِ.

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ نے بیان کیا کہ 70 ھ میں جس سال مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا۔ تو وفات سے ایک سال پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کو جدا کر دو اور عمر رضی اللہ عنہ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3157

حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ".

لیکن جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے پارسیوں سے جزیہ لیا تھا (تو وہ بھی لینے لگے تھے)۔

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3158

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَتْ صَلَاةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى بِهِمُ الْفَجْرَ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "أَظُنُّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ فَوَاللَّهِ لَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، ‏‏‏‏‏‏وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے اور انہیں عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ نے خبر دی وہ بنی عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے لوگوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم بنایا تھا۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار کو معلوم ہو گیا کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ آ گئے ہیں۔ چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہیں خوشخبری ہو، اور اس چیز کے لیے تم پرامید رہو۔ جس سے تمہیں خوشی ہو گی، لیکن اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کا کچھ دنیا کے دروازے تم پر اس طرح کھول دئیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دئیے گئے تھے، تو ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح ایک دوسرے سے جلنے لگو اور یہ جلنا تم کو بھی اسی طرح تباہ کر دے جیسا کہ پہلے لوگوں کو کیا تھا۔

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3159

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الْأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَعَمْ مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كُسِرَ الْجَنَاحُ الْآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلَانِ وَالرَّأْسُ وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلَانِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَالرَّأْسُ كِسْرَى وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ وَالْجَنَاحُ الْآخَرُ فَارِسُ فَمُرِ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَكْرٌ وَزِيَادٌ جميعا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَدَبَنَا عُمَرُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا فَقَامَ تَرْجُمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَالْمُغِيرَةُ :‏‏‏‏ سَلْ عَمَّا شئِتَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْتُمْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلَاءٍ شَدِيدٍ نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرَضِينَ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ:‏‏‏‏ "نُقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ.

ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے، کہا ہم سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر ہر دو نے بیان کیا اور ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ کفار سے جنگ کے لیے عمر رضی اللہ عنہ نے فوجوں کو (فارس کے) بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا۔ (جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا) تو ہرمزان (شوستر کا حاکم) اسلام لے آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تم سے ان (ممالک فارس وغیرہ) پر فوج بھیجنے کے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں (کہ پہلے ان تین مقاموں فارس، اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے) اس نے کہا جی ہاں! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے، دو بازو ہیں۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ اگر دوسرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بےکار رہ جاتا ہے۔ پس سر تو کسریٰ ہے، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس! اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں۔ اور بکر بن عبداللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں عمر رضی اللہ عنہ نے (جہاد کے لیے) بلایا اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہمارا امیر مقرر کیا۔ جب ہم دشمن کی سر زمین (نہاوند) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لیے ہوئے ہمارے مقابلہ کے لیے بڑھا۔ پھر ایک ترجمان نے آ کر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص (معاملات پر) گفتگو کرے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے (مسلمانوں کی نمائندگی کی اور) فرمایا کہ جو تمہارے مطالبات ہوں، انہیں بیان کرو۔ اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تھے۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے۔ اون اور بال ہماری پوشاک تھی۔ اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح (کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا) ایک نبی بھیجا۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں۔ جب تک تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کر لو اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ (اسلام کے لیے لڑتے ہوئے) جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ (فتح حاصل کر کے) تم پر حاکم بن سکیں گے (مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کر کے نعمان رضی اللہ عنہ سے کہا لڑائی شروع کرو)۔

جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 3160

فَقَالَ النُّعْمَانُ :‏‏‏‏ رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنَدِّمْكَ وَلَمْ يُخْزِكَ وَلَكِنِّي شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الْأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ".

نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے۔ اور اس نے(لڑائی میں دیر کرنے پر) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے، ہوائیں چلنے لگیں، نمازوں کا وقت آن پہنچے۔

اگر بستی کے حاکم سے صلح ہو جائے تو بستی والوں سے بھی صلح سمجھی جائے گی

حد یث نمبر - 3161

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَسَاهُ بُرْدًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ".

ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباس ساعدی نے اور ان سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غزوہ تبوک میں شریک تھے۔ ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک چادر بطور خلعت کے اور ایک تحریر کے ذریعہ اس کے ملک پر اسے ہی حاکم باقی رکھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کافروں کو امان دی ( اپنے ذمہ میں لیا ) ان کے امان کو قائم رکھنے کی وصیت کرنا

وَالذِّمَّةُ الْعَهْدُ، وَالإِلُّ الْقَرَابَةُ.

اور «ذمة» کہتے ہیں عہد اور اقرار کو، اور «الإل» کا لفظ جو قرآن میں آیا ہے اس کے معنے رشتہ داری کے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کافروں کو امان دی ( اپنے ذمہ میں لیا ) ان کے امان کو قائم رکھنے کی وصیت کرنا

حد یث نمبر - 3162

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جُوَيْرِيَةَ بْنَ قُدَامَةَ التَّمِيمِيَّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"قُلْنَا أَوْصِنَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكُمْ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَإِنَّهُ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ".

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جویریہ بن قدامہ تمیمی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بحرین سے ( مجاہدین کو کچھ معاش ) دینا اور بحرین کی آمدنی اور جزیہ میں سے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کرنا اس کا بیان اور اس کا کہ جو مال کافروں سے بن لڑے ہاتھ آئے یا جزیہ وہ کن لوگوں کو تقسیم کیا جائے

حد یث نمبر - 3163

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ لِيَكْتُبَ لَهُمْ بِالْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَكْتُبَ لِإِخْوَانِنَا مِنْ قُرَيْشٍ بِمِثْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "ذَاكَ لَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ يَقُولُونَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ".

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا، تاکہ بحرین میں ان کے لیے کچھ زمین لکھ دیں۔ لیکن انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! اللہ کی قسم! (ہمیں اسی وقت وہاں زمین عنایت فرمائیے) جب اتنی زمین ہمارے بھائی قریش (مہاجرین) کے لیے بھی آپ لکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک اللہ کو منظور ہے یہ معاش ان کو بھی (یعنی قریش والوں کو) ملتی رہے گی۔ لیکن انصار یہی اصرار کرتے رہے کہ قریش والوں کے لیے بھی سندیں لکھ دیجئیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی، لیکن تم صبر سے کام لینا، تاآنکہ تم آخر میں مجھ سے آ کر ملو(جنگ اور فساد نہ کرنا)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بحرین سے ( مجاہدین کو کچھ معاش ) دینا اور بحرین کی آمدنی اور جزیہ میں سے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کرنا اس کا بیان اور اس کا کہ جو مال کافروں سے بن لڑے ہاتھ آئے یا جزیہ وہ کن لوگوں کو تقسیم کیا جائے

حد یث نمبر - 3164

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِي:‏‏‏‏ "لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنِي فَأَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِي:‏‏‏‏ لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ احْثُهُ فَحَثَوْتُ حَثْيَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ عُدَّهَا فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَةٍ فَأَعْطَانِي أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ"

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے روح بن قاسم نے خبر دی، انہیں محمد بن منکدر نے بیان کیا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے روپیہ آیا، تو میں تمہیں اتنا، اتنا، اتنا (تین لپ) دوں گا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور اس کے بعد بحرین کا روپیہ آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی سے کوئی دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا روپیہ ہمارے یہاں آیا تو میں تمہیں اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اچھا ایک لپ بھرو، میں نے ایک لپ بھری، تو انہوں نے فرمایا کہ اسے شمار کرو، میں نے شمار کیا تو پانچ سو تھا، پھر انہوں نے مجھے ڈیڑھ ہزار عنایت فرمایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بحرین سے ( مجاہدین کو کچھ معاش ) دینا اور بحرین کی آمدنی اور جزیہ میں سے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کرنا اس کا بیان اور اس کا کہ جو مال کافروں سے بن لڑے ہاتھ آئے یا جزیہ وہ کن لوگوں کو تقسیم کیا جائے

حد یث نمبر - 3165

وَقَالَ:‏‏‏‏ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْثُرُوهُ فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي إِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْ فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَثَرَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فَمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَثَرَ مِنْهُ ثُمَّ احْتَمَلَهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ فَمَا زَالَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ".

اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بحرین سے خراج کا روپیہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلا دو، بحرین کا وہ مال ان تمام اموال میں سب سے زیادہ تھا جو اب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آ چکے تھے۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی عنایت فرمائیے (میں زیر بار ہوں) کیونکہ میں نے (بدر کے موقع پر) اپنا بھی فدیہ ادا کیا تھا اور عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا لے لیجئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا (لیکن اٹھایا نہ جا سکا) تو اس میں سے کم کرنے لگے۔ لیکن کم کرنے کے بعد بھی نہ اٹھ سکا تو عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو حکم دیں کہ اٹھانے میں میری مدد کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اٹھوا دیں۔ فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ پھر عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ کم کیا، لیکن اس پر بھی نہ اٹھا سکے تو کہا کہ کسی کو حکم دیجئیے کہ وہ اٹھا دے، فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، انہوں نے کہا پھر آپ ہی اٹھا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ آخر اس میں سے انہیں پھر کم کرنا پڑا اور تب کہیں جا کے اسے اپنے کاندھے پر اٹھا سکے اور لے کر جانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک انہیں برابر دیکھتے رہے، جب تک وہ ہماری نظروں سے چھپ نہ گئے۔ ان کے حرص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب فرمایا اور آپ اس وقت تک وہاں سے نہ اٹھے جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی رہا۔

کسی ذمی کافر کو ناحق مار ڈالنا کیسا گناہ ہے ؟

حد یث نمبر - 3166

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍورَضِيَ اللَّهُ عنه، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا".

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسن بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ذمی کو (ناحق) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔

یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا

وَقَالَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ بِهِ".

اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے) فرمایا کہ میں تمہیں اس وقت تک یہاں رہنے دوں گا جب تک اللہ تم کو یہاں رکھے۔

یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا

حد یث نمبر - 3167

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ فَمَنْ يَجِدْ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعد مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (ابوسعید) نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم ابھی مسجد نبوی میں موجود تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور فرمایا کہ یہودیوں کی طرف چلو۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور جب بیت المدراس (یہودیوں کا مدرسہ) پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسلام لاؤ تو سلامتی کے ساتھ رہو گے اور سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اور اس کے رسول کی ہے۔ اور میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اس ملک سے نکال دوں، پھر تم میں سے اگر کسی کی جائیداد کی قیمت آئے تو اسے بیچ ڈالے۔ اگر تم اس پر تیار نہیں ہو، تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول ہی کی ہے۔

یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا

حد یث نمبر - 3168

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى:‏‏‏‏ يَوْمُ الْخَمِيسِ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ"ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ.

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان احول نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا آپ نے جمعرات کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا، تمہیں معلوم ہے کہ جمعرات کا دن، ہائے! یہ کون سا دن ہے؟ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسووں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ سعید نے کہا میں نے عرض کیا، یا ابوعباس! جمعرات کے دن سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف (مرض الموت) میں شدت پیدا ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے (لکھنے کا) ایک کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھ جاؤں، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر لوگوں کا اختلاف ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ نبی کی موجودگی میں جھگڑنا غیر مناسب ہے، دوسرے لوگ کہنے لگے، بھلا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےکار باتیں فرمائیں گے اچھا، پھر پوچھ لو، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میری حالت پر چھوڑ دو، کیونکہ اس وقت میں جس عالم میں ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا حکم فرمایا، کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور وفود کے ساتھ اسی طرح خاطر تواضع کا معاملہ کرنا، جس طرح میں کیا کرتا تھا۔ تیسری بات کچھ بھلی سی تھی، یا تو سعید نے اس کو بیان نہ کیا، یا میں بھول گیا۔ سفیان نے کہا یہ جملہ (تیسری بات کچھ بھلی سی تھی) سلیمان احول کا کلام ہے۔

اگر کافر مسلمانوں سے دغا کریں تو ان کو معافی دی جا سکتی ہے یا نہیں ؟

حد یث نمبر - 3169

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اجْمَعُوا إِلَيَّ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ يَهُودَ فَجُمِعُوا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبْتُمْ بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ صَدَقْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ وَإِنْ كَذَبْنَا عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ مَنْ أَهْلُ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا نَسْتَرِيحُ وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو (یہودیوں کی طرف سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بکری کا یا ایسے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے یہودی یہاں موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو، چنانچہ وہ سب آ گئے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو، میں تم سے ایک بات پوچھوں گا۔ کیا تم لوگ صحیح صحیح جواب دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، تمہارے باپ کون تھے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارے باپ تو فلاں تھے۔ سب نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو تم صحیح واقعہ بیان کر دو گے؟ سب نے کہا جی ہاں، اے ابوالقاسم! اور اگر ہم جھوٹ بھی بولیں گے تو آپ ہماری جھوٹ کو اسی طرح پکڑ لیں گے جس طرح آپ نے ابھی ہمارے باپ کے بارے میں ہمارے جھوٹ کو پکڑ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ دوزخ میں جانے والے کون لوگ ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں کے لیے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے لیکن پھر آپ لوگ ہماری جگہ داخل کر دئیے جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس میں برباد رہو، اللہ گواہ ہے کہ ہم تمہاری جگہ اس میں کبھی داخل نہیں کئے جائیں گے۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو کیا تم مجھ سے صحیح واقعہ بتا دو گے؟ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہاں! اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں (نبوت میں) تو ہمیں آرام مل جائے گا اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

وعدہ توڑنے والوں کے حق میں امام کی بددعا

حد یث نمبر - 3170

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْقُنُوتِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَبْلَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ فُلَانًا يَزْعُمُ أَنَّكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتَ:‏‏‏‏ بَعْدَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبَ ثُمّ حَدَّثَنَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ"بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْقُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلَاءِ فَقَتَلُوهُمْ وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ".

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ہم سے عاصم احول نے، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے، انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعا قنوت کی تھی۔ اور آپ نے اس میں بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت، راوی کو شک تھا، مشرکین کے پاس بھیجی تھی، لیکن بنو سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا۔ (لیکن انہوں نے دغا دی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔

( مسلمان ) عورتیں اگر کسی ( غیرمسلم ) کو امان اور پناہ دیں ؟

حد یث نمبر - 3171

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ هَذِهِ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيٌّ أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ:‏‏‏‏ وَذَلِكَ ضُحًى".

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عمرو بن عبداللہ کے غلام ابوالنضر نے، انہیں ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ نے خبر دی، انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ بیان کرتی تھیں کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی (مکہ میں) میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی صاحبزادی پردہ کئے ہوئے تھیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کون صاحبہ ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں ام ہانی بنت ابی طالب ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آؤ اچھی آئیں، ام ہانی! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک کپڑا جسم اطہر پر لپیٹے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شخص کو جسے میں پناہ دے چکی ہوں، قتل کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ یہ شخص ہبیرہ کا فلاں لڑکا (جعدہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی، اسے ہماری طرف سے بھی پناہ ہے۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ وقت چاشت کا تھا۔

مسلمان سب برابر ہیں اگر ایک ادنیٰ مسلمان کسی کافر کو پناہ دے تو سب مسلمانوں کو قبول کرنا چاہئے

حد یث نمبر - 3172

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَنَا عَلِيٌّ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِيهَا الْجِرَاحَاتُ وَأَسْنَانُ الْإِبِلِ وَالْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ آوَى فِيهَا مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَدْلٌ وَمَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِكَ.

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ (یزید بن شریک تیمی) نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیا، جس میں فرمایا کہ کتاب اللہ اور اس ورق میں جو کچھ ہے، اس کے سوا اور کوئی کتاب (احکام شریعت کی) ایسی ہمارے پاس نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں، پھر آپ نے فرمایا کہ اس میں زخموں کے قصاص کے احکام ہیں اور دیت میں دئیے جانے والے کی عمر کے احکام ہیں اور یہ کہ مدینہ حرم ہے عیر پہاڑی سے فلاں (احد پہاڑی) تک۔ اس لیے جس شخص نے کوئی نئی بات (شریعت کے اندر داخل کی) یا کسی ایسے شخص کو پناہ دی تو اس پر اللہ، ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہے، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل۔ اور یہ بیان ہے جو لونڈی غلام اپنے مالک کے سوا کسی دوسرے کو مالک بنائے اس پر بھی اس طرح (لعنت) ہے۔ اور مسلمان مسلمان سب برابر ہیں ہر ایک کا ذمہ یکساں ہے۔ پس جس شخص نے کسی مسلمان کی پناہ میں (جو کسی کافر کو دی گئی ہو) دخل اندازی کی تو اس پر بھی اسی طرح لعنت ہے۔

اگر کافر لڑائی کے وقت گھبرا کر اچھی طرح یوں نہ کہہ سکیں ہم مسلمان ہوئے اور یوں کہنے لگیں ہم نے دین بدل دیا ، دین بدل دیا تو کیا حکم ہے ؟

وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِذَا قَالَ مَتْرَسْ فَقَدْ آمَنَهُ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ الْأَلْسِنَةَ كُلَّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ تَكَلَّمْ لَا بَأْسَ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (بنی ہدبہ کی جنگ میں) کافروں کو مارنا شروع کر دیا، حالانکہ وہ کہتے جاتے تھے۔ ہم نے دین بدل دیا، ہم نے دین بدل دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حال سنا تو فرمایا، یا اللہ! میں تو خالد کے کام سے بیزار ہوں، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، کہا جب کسی (مسلمان) نے (کسی فارسی آدمی سے) کہا کہ «مترس‏.‏» مت ڈرو تو گویا اس نے اسے امان دے دی، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کو جانتا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے (ہرمزان سے) کہا (جب اسے مسلمان گرفتار کر کے لائے) کہ جو کچھ کہنا ہو کہو، ڈرو مت۔

مشرکوں سے مال وغیرہ پر صلح کرنا ، لڑائی چھوڑ دینا ، اور جو کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ

وَقَوْلِهِ: ‏‏‏‏وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا‏‏‏‏ الآيَةَ.

اور (سورۃ الانفال میں) اللہ کا یہ فرمانا «وإن جنحوا للسلم فاجنح لها‏» اگر کافر صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا۔ اخیر آیت تک۔

مشرکوں سے مال وغیرہ پر صلح کرنا ، لڑائی چھوڑ دینا ، اور جو کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ

حد یث نمبر - 3173

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِشْرٌ هُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ ومُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ فَتَفَرَّقَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى مُحَيِّصَةُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمٍ قَتِيلًا فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةُ وَحُوَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَبِّرْ كَبِّرْ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتُبْرِيكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ فَعَقَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ".

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے۔ ان دنوں (خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی) صلح تھی۔ پھر دونوں حضرات (خیبر پہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے) جدا ہو گئے۔ اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا، خیر محیصہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا۔ پھر مدینہ آئے، اس کے بعد عبدالرحمٰن بن سہل (عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی)اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے شروع کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں۔ عبدالرحمٰن سب سے کم عمر تھے، وہ چپ ہو گئے۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی۔ آپ نے دریافت کیا، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھا کر کے کر دیں؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کر دی۔

عہد پورا کرنے کی فضیلت

حد یث نمبر - 3174

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبِ بْنِ أُمَيَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ:‏‏‏‏ "أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي مَادَّ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا سُفْيَانَ فِي كُفَّارِ قُرَيْشٍ.

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، اور انہیں ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل (فرمانروائے روم) نے انہیں قریش کے قافلے کے ساتھ بلا بھیجا (یہ لوگ شام اس زمانے میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان سے (صلح حدیبیہ میں) قریش کے کافروں کے مقدمہ میں صلح کی تھی۔

اگر کسی ذمی نے کسی پر جادو کر دیا تو کیا اسے معاف کیا جا سکتا ہے ؟

وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ سُئِلَ أَعَلَى مَنْ سَحَرَ مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ قَتْلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قَدْ صُنِعَ لَهُ ذَلِكَ فَلَمْ يَقْتُلْ مَنْ صَنَعَهُ وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ".

ابن وہب نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی کہ ابن شہاب رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا اگر کسی ذمی نے کسی پر جادو کر دیا تو اسے قتل کر دیا جائے؟ انہوں نے بیان کیا کہ یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے جادو کرنے والے کو قتل نہیں کروایا تھا اور آپ پر جادو کرنے والا اہل کتاب میں سے تھا۔

اگر کسی ذمی نے کسی پر جادو کر دیا تو کیا اسے معاف کیا جا سکتا ہے ؟

حد یث نمبر - 3175

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سُحِرَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ".

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا گیا تھا۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ سمجھتے کہ میں نے فلاں کام کر لیا ہے۔ حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔

دغا بازی کرنا کیسا گناہ ہے ؟

وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ‏‏‏‏ الآيَةَ.

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وإن يريدوا أن يخدعوك فإن حسبك الله» اور اگر یہ کافر لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں (اے نبی!) تو اللہ آپ کے لیے کافی ہے۔ آخر آیت تک۔

دغا بازی کرنا کیسا گناہ ہے ؟

حد یث نمبر - 3176

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ مَوْتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".

مجھ سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بسر بن عبیداللہ سے سنا، انہوں نے ابوادریس سے سنا، کہا کہ میں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)۔

عہد کیوں کر واپس کیا جائے ؟

وَقَوْلُهُ: ‏‏‏‏وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ‏‏‏‏ الآيَةَ.

اور اللہ پاک نے سورۃ الانفال میں فرمایا «وإما تخافن من قوم خيانة فانبذ إليهم على سواء» اگر آپ کو کسی قوم کی طرف سے دغا بازی کا ڈر ہو تو آپ ان کا عہد معقول طور سے ان کو واپس کر دیں۔ آخر آیت تک۔

عہد کیوں کر واپس کیا جائے ؟

حد یث نمبر - 3177

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِيمَنْ يُؤَذِّنُ يَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَيَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ وَإِنَّمَا قِيلَ الْأَكْبَرُ مِنْ أَجْلِ قَوْلِ النَّاسِ الْحَجُّ الْأَصْغَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَبَذَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى النَّاسِ فِي ذَلِكَ الْعَامِ فَلَمْ يَحُجَّ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ الَّذِي حَجَّ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُشْرِكٌ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (حجۃ الوداع سے پہلے والے حج کے موقع پر) دسویں ذی الحجہ کے دن بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی منیٰ میں یہ اعلان کرنے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر نہ کرے اور حج اکبر کا دن دسویں تاریخ ذی الحجہ کا دن ہے۔ اسے حج اکبر اس لیے کہا گیا کہ لوگ (عمرہ کو) حج اصغر کہنے لگے تھے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سال مشرکوں سے جو عہد لیا تھا اسے واپس کر دیا، اور دوسرے سال حجۃ الوداع میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو کوئی مشرک شریک نہیں ہوا۔

معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ ؟

وَقَوْلِهِ: ‏‏‏‏الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ‏‏‏‏.

اور سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد «الذين عاهدت منهم ثم ينقضون عهدهم في كل مرة وهم لا يتقون‏» وہ لوگ (یہود) آپ جن سے معاہدہ کرتے ہیں، اور پھر ہر مرتبہ وہ دغا بازی کرتے ہیں، اور وہ باز نہیں آتے۔

معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ ؟

حد یث نمبر - 3178

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَرْبَعُ خِلَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَنَّ مُنَافِقًا خَالِصًا مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چار عادتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ چاروں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ پکا منافق ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ کرے، تو وعدہ خلافی کرے، اور جب معاہدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔ اور جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے اور اگر کسی شخص کے اندر ان چاروں عادتوں میں سے ایک ہی عادت ہے، تو اس کے اندر نفاق کی ایک عادت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔

معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ ؟

حد یث نمبر - 3179

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا كَتَبْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم تیمی نے، انہیں ان کے باپ (یزید بن شریک تیمی) نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بس یہی قرآن مجید لکھا اور جو کچھ اس ورق میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مدینہ عائر پہاڑی اور فلاں (کدیٰ) پہاڑی کے درمیان تک حرم ہے۔ پس جس نے یہاں (دین میں) کوئی نئی چیز داخل کی یا کسی ایسے شخص کو اس کے حدود میں پناہ دی تو اس پر اللہ تعالیٰ، ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہو گی۔ نہ اس کا کوئی فرض قبول اور نہ نفل قبول ہو گا۔ اور مسلمان پناہ دینے میں سب برابر ہیں۔ معمولی سے معمولی مسلمان (عورت یا غلام) کسی کافر کو پناہ دے سکتے ہیں۔ اور جو کوئی کسی مسلمان کا کیا ہوا عہد توڑ ڈالے اس پر اللہ اور ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہو گی، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل! اور جس غلام یا لونڈی نے اپنے آقا اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو اپنا مالک بنا لیا، تو اس پر اللہ اور ملائکہ اور انسان سب کی لعنت ہو گی، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل!

معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ ؟

حد یث نمبر - 3180

قَالَ أَبُو مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَمْ تَجْتَبُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ وَكَيْفَ تَرَى ذَلِكَ كَائِنًا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِي وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ عَنْ قَوْلِ الصَّادِقِ الْمَصْدُوقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ عَمَّ ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْتَهَكُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَشُدُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قُلُوبَ أَهْلِ الذِّمَّةِ فَيَمْنَعُونَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ".

ابوموسیٰ (محمد بن مثنیٰ) نے بیان کیا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سعید بن عمرو نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب (جزیہ اور خراج میں سے) نہ تمہیں درہم ملے گا اور نہ دینار! اس پر کسی نے کہا۔ کہ جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ ایسا ہو گا؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے۔ یہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ لوگوں نے پوچھا تھا کہ یہ کیسے ہو جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا، جب کہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد (اسلامی حکومت غیر مسلموں سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں) توڑا جانے لگے، تو اللہ تعالیٰ بھی ذمیوں کے دلوں کو سخت کر دے گا۔ اور وہ جزیہ دینا بند کر دیں گے (بلکہ لڑنے کو مستعد ہوں گے)۔

باب: ۔۔۔ 18

حد یث نمبر - 3181

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ شَهِدْتَ صِفِّينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُسَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا لِأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرِ أَمْرِنَا هَذَا".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے اعمش سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا، کیا آپ صفین کی جنگ میں موجود تھے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں (میں تھا) اور میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ تم لوگ خود اپنی رائے کو غلط سمجھو، جو آپس میں لڑتے مرتے ہو۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پھیر دیتا اور ہم نے جب کسی مصیبت میں ڈر کر تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو وہ مصیبت آسان ہو گئی۔ ہم کو اس کا انجام معلوم ہو گیا۔ مگر یہی ایک لڑائی ہے (جو سخت مشکل ہے اس کا انجام بہتر نہیں معلوم ہوتا)۔

باب: ۔۔۔ 18

حد یث نمبر - 3182

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا بِصِفِّينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏"أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "بَلَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ".

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے، ان سے یزید بن عبدالعزیز نے، ان سے ان کے باپ عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔

باب: ۔۔۔ 18

حد یث نمبر - 3183

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَعَمْ صِلِيهَا".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قریش سے جس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیبیہ کی) صلح کی تھی، اسی مدت میں میری والدہ (قتیلہ) اپنے باپ (حارث بن مدرک) کو ساتھ لے کر میرے پاس آئیں، وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ (عروہ نے بیان کیا کہ) اسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری والدہ آئی ہوئی ہیں اور مجھ سے رغبت کے ساتھ ملنا چاہتی ہیں، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان کے ساتھ صلہ رحمی کر۔

تین دن یا ایک معین مدت کے لیے صلح کرنا

حد یث نمبر - 3184

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ وَلَا يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ لَا يَكْتُبُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لِعَلِيٍّ امْحَ رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَلِيٌّ وَاللَّهِ لَا أَمْحَاهُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَرِنِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَى الْأَيَّامُ أَتَوْا عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ فَذَكَرَ ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْتَحَلَ".

ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ (اجازت دی) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور (مکہ کے) کسی آدمی کو اپنے ساتھ (مدینہ) نہ لے جائیں (اگرچہ وہ جانا چاہے) انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے۔ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے، یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دے۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاؤ، راوی نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ لفظ دکھایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور (تین) دن گزر گئے تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں (علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

نامعلوم مدت کے لیے صلح کرنا

وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ بِهِ».

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے فرمایا تھا میں اس وقت تک تمہیں یہاں رہنے دوں گا، جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔

مشرکوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکوانا اور ان کی لاشوں کی ( اگر ان کے ورثاء دینا بھی چاہیں تو بھی ) قیمت نہ لینا

حد یث نمبر - 3185

4 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَى جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ حَتَّى جَاءَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام فَأَخَذَتْ مِنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَا مِنْ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ عَلَيْكَ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ غَيْرَ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا فَلَمَّا جَرُّوهُ تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ قَبْلَ أَنْ يُلْقَى فِي الْبِئْرِ".

ہم سے عبدان بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے، انہیں عمرو بن میمون نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مکہ میں (شروع اسلام کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں تھے اور قریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر اسے ڈال دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے اپنا سر نہ اٹھا سکے۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے اس اوجھڑی کو ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلا کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بددعا کی کہ اے اللہ! قریش کی اس جماعت کو پکڑ۔ اے اللہ! ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو برباد کر۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب بدر کی لڑائی میں قتل کر دئیے گئے۔ اور ایک کنویں میں انہیں ڈال دیا گیا تھا۔ سوا امیہ یا ابی کے کہ یہ شخص بہت بھاری بھر کم تھا۔ جب اسے صحابہ نے کھینچا تو کنویں میں ڈالنے سے پہلے ہی اس کے جوڑ جوڑ الگ ہو گئے۔

دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ

حد یث نمبر - 3186

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَحَدُهُمَا يُنْصَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ الْآخَرُ يُرَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا، ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے، اس کے ذریعہ اسے پہچانا جائے گا۔

دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ

حد یث نمبر - 3187

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَحَدُهُمَا يُنْصَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ الْآخَرُ يُرَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ".

ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا، ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے، اس کے ذریعہ اسے پہچانا جائے گا۔

دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ

حد یث نمبر - 3188

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُنْصَبُ لغَدْرَتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دغا باز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی دغا بازی کی علامت کے طور پر (اس کے پیچھے) گاڑ دیا جائے گا۔

دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ

حد یث نمبر - 3189

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْعَبَّاسُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِلَّا الْإِذْخِرَ".

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔